تم سے ملنا میری قسمت تھی
تم پر ٹھہرنا میری مرضی تھی
وہ پہلی نظر تمہیں دیکھنا زندگی لگی
جیسے تاریک غار میں شمع کہیں جلی
تم سے ملنا میری قسمت تھی
تم پر ٹھہرنا میری مرضی تھی
وہ پہلی نظر تمہیں دیکھنا زندگی لگی
جیسے تاریک غار میں شمع کہیں جلی
اَزل سے مُتلاشی اِک حَصّار کے
ابد تک بہت دُور تَلک جائیں گے
تب تک قدم نہ لڑکھڑائیں گے
جب تک باہم نہ چل پائیں گے
سچ میں کوئی نہیں ہے
یہاں اب کوئی نہیں ہے
بس تم ، فقط تم، صرف تم؟
اور میں،یعنی میں، میں خود؟ جی۔۔بس میں
سُن تُو مجھے جان سے پیاری ہے
جانِ جاں یہ بھی حق وفاداری ہے
بوڑھا سا ہو چکا تھا یہ دل من
سہ سہ کے شب و روز کے ستم
سوچا تھا کبھی دلِ دشت میں
کسی بھولی بسری شام میں
موسم وہی پھر سے آ رہا
اداس گھڑیوں کے دوام میں
نہ رنگیں طبیعت ، نہ شوخ پرور
اِس سادہ سے لڑکے سے کام پڑ گیا ہے
گردش ایام کے جو تھا بوجھ تلے
وہ شاعری میں تھوڑا نام کر گیا ہے
جب جب اصلیت نوشتہ دیوار ہوتی ہی
تب تب یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے
ہوتی ہے پیدائش، موت بھی اِک بار
اِک بار ہی محبت گل و گلزار ہوتی ہے
رات جو پورا چاند تھا نکلا
اُس میں تیرا عکس تھا دِکھلا
رات ساری رہا میں تکتا
چاند کو یہ رہا میں کہتا
کچھ کچھ اب مجھ پر آشکار ہوا ہے
ہاں! واقعی مجھے بھی کہیں پیار ہوا ہے
کچھ یاد پڑے تو بھلے وقتوں کی بات تھی
بھلی سی اک شکل لگتی کل کائنات تھی
دیکھو میں کتنا مسکرا رہا ہوں
کہنا بہت کچھ، لیکن چھُپا رہا ہوں
آپ کی عادت نہ تھی، نہ ہے، نہ ہوگی
بڑے ہُنر سے خود کو سمجھا رہا ہوں
پاس بیٹھا دوست شکوہ کرتے
ہوئے
روکا گیا ہے عورت کو جنگوں میں مارنے سے
بھلا بتاؤ کیسے ؟ ہم اُسے، مَحبّت میں مار دیں !
رائے وقاص کھرل