میں کاٹ رہا ہوں، تُو کٹ رہی ہے
کس موڑ پر لا کر کھڑا کر رہی ہے
اے زندگی تو سنبھل ذرا، تھم ذرا
ٹھہر جا ، مزاج اپنے کو پرکھ ذرا
ارے تو اتنی سادہ کتاب کیسے ہے؟
اتنے سوالوں کے جواب کیسے ہیں؟
اکثر انساں خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں
جو نظر نہیں آتے وہ وہی ہوتے ہیں
اندر سے ٹوٹے، باہر سے خُرم ہوتے ہیں
مایوس لیکن قہقہوں میں گُم ہوتے ہیں
بلایا تھا ہم نے ہی آوازیں دے کر اُنہیں
اپنے ہی گلے میں کروائے زخم بیٹھے ہیں
سامنے بیٹھے ہیں، کچھ چاہیے اِنکو
اِنکے زخموں کی ہم مرہم بیٹھے ہیں
وہ گھبرا رہے ہیں ، شرما رہے ہیں
آنکھوں سے آنکھیں نہ ملا رہے ہیں
بازارِ محبت میں پھرتے پھرتے
کتابوں کو دیکھے جا رہے ہیں
نفس قائل نہ ہے اُن کا کہ
اک اور کتاب اٹھائی جائے
دل کی مان کے، پِھر سے
اک اور کہانی بنائی جائے
ورق پر ورق پلٹے جائیں
افسانے نئے سُنائے جائیں
کیا پھر سے آغاز کیا جائے
کیا پھر سے کسی کا ہُوا جائے
کیا پھر سے بادل سے جذبے کو
اپنی آنکھوں سے چُھوا جائے
بس انہی خیالوں کی برکھا میں
وہ بھیگے بھیگے جا رہے ہیں
احساسات کے محسوس سے قبل
وہ سوچوں میں پڑتے جا رہے ہیں
امتحاں میں بیٹھے طالب کی ماند
کانپتی انگلیوں کو مسلے جا رہے ہیں
زندگی، وہ تجھ سے ڈرے ہوئے ہیں
خوش تھے مگر کہیں ٹھہرے ہوئے ہیں
ہچکچاہٹ ، جھجھک کی کشمکش میں
چاندنی رات کی خاموش جنبش میں
وہ سوال بھی نہ کر پا رہے ہیں
فقط گھڑی کو دیکھے جا رہے ہیں
انتظار میں بیٹھے مسافر کی طرح
ہم بھی حرکات کو ماپے جا رہے تھے
کہنا چاہتے تھے ہم بھی بہت کچھ
شاید مسئلہ اُن کے لئے بڑھا رہے تھے
اُنہوں نے جانا چاہا ، ہم نے جانے دیا
پہلی ملاقات میں یہی وہ چاہ رہے تھے
یہاں ماضی، مستقبل میں سب پھنسے
مجھے حال میں رہ کر کیا مِلنا
جِسے جنت دوزخ کی پرواہ نہیں
اُسے شاہ سے سیکھ کر کیا ملنا
پٹی باندھ، تقلید کر، اندھا بن رآئے
ارے تُجھے نہ صَنم ملنا نہ خُدا ملنا