سچ میں کوئی نہیں ہے
یہاں اب کوئی نہیں ہے
بس تم ، فقط تم، صرف تم؟
اور میں،یعنی میں، میں خود؟ جی۔۔بس میں
میں، میرا وجود، میرے خیال
کبھی مسکراہٹ، غم تو کبھی بکھرے بال
کیوں بار بار آلہ رابطہ کو تھامے
کیوں اس کی جلتی بجھتی روشنی کو دیکھے
کیوں کر رہے ہو کسی کا انتظار
انتظار اُسی پیغام کا، آواز کا، انسان کا
وہ جا چکا ہے، یقین کرو
یہاں اب کوئی نہیں ہے
کوئی وجود نہیں ہے
کوئی کسر نہیں ہے
صرف تم ہو ، فقط تم
یعنی میں ، فقط میں
میں وہی ہوں، وہ نہیں ہے
تو پھر میں کس کی تلاش میں ہوں
میری گستاخ آنکھیں، میری کمزور یادداشت
کس کو ڈھونڈ رہے، کس کو یاد کر رہے
کچھ پانا ہے ابھی، کچھ ممکن ہے ابھی
کسی کو طلب ہے میری، ہے مجھے کسی کی طلب
وہ کہاں ہے ، ارے وہ بھی یہاں ہے
دشت، دریاؤں، صحراؤں، دور بسے گاؤں
سب کے سب میں ڈھونڈیں گے اسے
ملے گا وہ، انساں ہے نا۔۔یا پھر خدا ہے
مجھے تھی اسی کی تلاش
جسےتھی میری تلاش
یہ بے چینی، اضطراب، محفل میں تنہائی
بے وجہ تو نہیں، رائیگاں تو نہیں
میں ڈھونڈ لوں گا ایک دن اسے
مجبور چہروں کے پیچھے، تلخ لہجوں کے نیچے
اس جھیل سی آنکھوں والی کو
اس پریوں کی شاہ زادی کو
اس جلترنگ پانیوں کی جل پری کو
اس صبح کی ٹھنڈی اوس کو
اس اٹھتی لہروں سی موج کو
برسنے کو ترستے بادل جیسی کو
سب رنگوں سے اٹی اس مور کو
سینے میں بند جذبات کے شور کو
سویر کی پہلی مدھم کرن کو
سنہری رات کی سبز روشنیوں کے ملن کو
سالوں سے بند موتی جیسی سیپ کو
کہیں گم ، کہیں کھوئی عندلیب کو
اداس گھڑی کی بے وجہ مُسکان کو
بھیڑ میں نکھڑے اس ہاتھ کو
میں ڈھونڈ لوں گا
میں تھام لوں گا
وہ جس حال میں ہو گا
میں پہچان لوں گا
وہ پیاس کہے گا
میں جام دوں گا
وہ دل کہے گا
میں نکال دوں گا
وہ نین کہے گا
میں نور دوں گا
وہ نام لے گا
میں جان دوں گا
میں تھام لوں گا
میں تھام لوں گا