سُن تُو مجھے جان سے پیاری ہے
جانِ جاں یہ بھی حق وفاداری ہے
بوڑھا سا ہو چکا تھا یہ دل من
سہ سہ کے شب و روز کے ستم
سُن تُو مجھے جان سے پیاری ہے
جانِ جاں یہ بھی حق وفاداری ہے
بوڑھا سا ہو چکا تھا یہ دل من
سہ سہ کے شب و روز کے ستم
سوچا تھا کبھی دلِ دشت میں
کسی بھولی بسری شام میں
موسم وہی پھر سے آ رہا
اداس گھڑیوں کے دوام میں
نہ رنگیں طبیعت ، نہ شوخ پرور
اِس سادہ سے لڑکے سے کام پڑ گیا ہے
گردش ایام کے جو تھا بوجھ تلے
وہ شاعری میں تھوڑا نام کر گیا ہے
جب جب اصلیت نوشتہ دیوار ہوتی ہی
تب تب یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے
ہوتی ہے پیدائش، موت بھی اِک بار
اِک بار ہی محبت گل و گلزار ہوتی ہے
رات جو پورا چاند تھا نکلا
اُس میں تیرا عکس تھا دِکھلا
رات ساری رہا میں تکتا
چاند کو یہ رہا میں کہتا